Tuesday, 12 April 2022

اویسی vs اکھکیش


یوپی انتخاب کے چلتے مسلمانوں کے دو طبقہ الگ نظریات کے ساتھ اپنی اپنی پارٹی کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
ان میں کا ایک بڑا حصہ اویسی کے ساتھ ہے،
ان کے پاس اویسی کو سپورٹ کرنے کی بنیادی تین دلیلیں ہیں،
 
1- ہم ان لیڈروں کو ووٹ کیوں کر دے سکتے ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے خلاف بی جے پی میں شامل تھے اور تین طلاق وغیرہ مسئلہ پر کھل کر بی جے پی کا ساتھ دے رہے تھے، یا مسلمانوں کو گالیاں دے رہے تھے!

2- سیکیولر پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا، سوائے اس کے کہ مسلمانوں رکشہ چلانے ہر مجبور ہوے، اب تک کانگریس کی سرکار تھی لیکن کانگریس بھی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں پائی، 2014 کے بعد ہونے والے حوادث کے مقابلے پہلے کے حوادث کچھ کم نہ تھے، یعنی تمام پارٹی ایک سکہ کے دو پہلو ہیں ایک بدنام ہوتا ہے تو دوسرا سامنے آجاتاہے۔ نیز مسلمان صرف ووٹ بنک بک کر رہ گیا ہے، سیکیولر پرٹیاں بی جے پی کا خوف دکھا کر چاہتی ہیں کہ مسلمان صرف اسی کو ہرانے میں لگا رہے،

3- جتنے حوادث مسلمانوں پر ہیں وہ سیاسی لیڈر شپ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں، اویسی کے علاوہ کون ہے جس نے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی ہو؟ جس نے تین طلاق، موبلینچگ، مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اور ہر اس مسئلہ میں جو صرف مسلمان کا مسئلہ ہے میں سبقت کی ہو اور پارلیمان یا میڈیا میں مضبوط آواز بن کر کھڑا ہوا ہو، یعنی یہ سب لیڈر شپ نہ ہونے کا نتیجہ ہے اسی لیے ہم کو اپنا سیاسی لیڈر اور سیاسی حصہ داری درکار ہے۔

جبکہ اوپر کی تینوں دلائل کو تسلیم کرتے ہوے اکھکیش کے سپوٹرز کی دلیل ماحول کا کارساز نہ ہونا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ انڈیا میں اگرچہ مسلمانوں کی تعداد دوسری ذاتوں سے ذات کے اعتبار سے کہیں زیادہ ہے، مگر ان ذاتوں کو ایک سازش کے ذریعے ایک نام (ہندو) پر متحد کر دیا گیا ہے، جہاں یہ بات آتی ہے کہ مسلمانوں کی حصہ داری اس ملک میں درکار ہے، وہیں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، وغیرہ، ہندؤ بنام مسلمان پر جمع ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک زمانے سے ان کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے، اکثر آبادی کو جبراً مسلمانوں کا خوف دکھا کر لفظِ ہندو میں شامل کر لیا گیا ہے،
اس ملک کی اصل سیاست ذات پات کے نظام پر مبنی ہے، براہمن، شیتریے اور ویشیے کا مقابلہ او بی سی، ایسی، ایس ٹی آدیواسیوں سے ہے، اوپر کی تینوں ذاتیں مسلمان کا خوف دکھا کر، اپنے سے نیچے کی ذات پر حکومت کرنا چاہتی ہے اور کر رہی ہے۔ 
بی جے پی کا ہندو مسلم کرنا اسی غرض سے ہے کہ کہیں پچھڑا طبقہ خواب سے بیدار نہ ہو جائے اور آرکشن کی مانگ پھر سے نا ہونے لگے جس کے نتیجہ میں وہ حکومت کرنے کے اہل ہو جائیں گے، 1980 منڈل کمیشن کی تاریخ اس کی شاہد ہے کہ ںابری مسجد کا سانحہ، رتھ یاترا سب اسی منڈل کو روکنے کے لیے ہوا تھا جس کا اظہار اس وقت کے وزیراعظم نے بھی 'منڈل نہیں تو کمنڈل نہیں' کے الفاظ سے کیا تھا. اب یوپی میں بھی منڈل کے جھنڈے تلے تمام پسماندہ طبقہ اور سیکولر ہندو جمع ہو رہا ہے، ادھر کمنڈل میں بھی ںغاوت کے آثار نظر آرہے ہیں

لہذا ہماری سیاست تب تک ناکام رہے گی جب تک ہم ان مظلوم طبقات کو ساتھ نہ لیں، اویسی کی چند سیٹ لانے پر سوائے بیان جاری کرنے کے کوئی فائدہ نہیں جبکہ ووٹوں کی تقسیم کے سبب مرکز میں بی جے پی ہو۔
لیڈرشپ کی واقعی ضرورت ہے، اتحاد بھی لازمی ہے، مسلمانوں کے اپسی انتشار کا ہی نتیجہ ہے کہ امت بربادی کے دہانے پر ہے، کیا خوب ہوتا کہ ایک ایسی لیڈرشپ ہوتی کہ جس کی آواز انڈیا کے ہر مسلمان کی آواز ہوتی، لیکن کیا ان سیاسی پارٹیوں میں اتحاد ہے جن کے سربراہ مسلمان ہیں، اور جو صرف مسلمان لیڈرشپ کے نام پر بنائی گئی تھیں، 
خلاصۃ یہ کہ فی الوقت حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ اتحاد کے ساتھ ووٹ دی جائیں، دوسری پارٹی کو ووٹ دینا یا ظالم وجابر کا سپورٹ کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ آئندہ پیش آنے والے تباہ کن نقصان سے بچنے کے لیے اس چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جاتا ہے۔

یوشع شاد قاسمی 

No comments:

Post a Comment