کسی بھی قلم کار یا خطیب کے لیے مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جاندار کے لیے غذا کی ضرورت ہے، قلم یا خطابت کے میدان میں بغیر مطالعہ کے جانا تلوار کے بغیر میدانِ جہاد میں جانے کے مرادف ہے، جس کا رنِ اول میں ہی شکست کھانا یقیقنی ہے، مطالعہ ہی علم کا قوی تر ذریعہ ہے، اور علم دماغ کی غذا ہے، علم کے بغیر انسان کا دماغ بے چین اور اضطراری کیفیت کا شکار ہوتا ہے، اگلے قریب زمانے میں ہر نکڑ اور بیٹھکوں میں لوگوں کا جمع ہونا اور گاؤں، بستی اور ملک کے متعلق تبادلہ خیال کرنا اسی کیفیت کی عکاسی تھی۔
جو دماغ جس کیفیت کی زیادتی کا شکار ہوتا وہ علم حاصل کرنے کے لئے اسی درجے کے ذریعہ کا انتخاب کرتا، کچھ لوگ علماء کی صحبت سے علمی سیرابی حاصل کرتے اور کچھ براہ راست کتب بینی سے علم کی پیاس بجھاتے اور ظاہر ہے کہ جو شخص حصولِ علم کے جس درجہ کا انتخاب کرتا ، اسی قدر علم اسکو حاصل ہوتا۔
بچوں کا والدین سے نئی نئی کہانیاں سننے کا اصرار کرنا، اور اشیاء کے متعلق بار بار سوال کرنا، اس بات کی طرف بدیہی اشارہ ہے کہ علم کا حصول ایک فطری عمل ہے، اور علم کی پیاس پانی کی پیاس کے مشابہ ہے،
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میرے لئے جو کھلونا خریدا جاتا اس کی خیر صرف ایک دن کہ رہتی اگلے دن اس کو توڑنا اور اس کے پرزوں کی تحقیق کرنا ناگزیر ہوتا اور تب تک ذہن کو سکون نہ ہوتا جب تک اس کے پرزوں کو بغور نہ دیکھ لیا جائے، ایک مرتبہ دادا کی ریڈیوں کے ٹکڑے صرف اس خیال سے کر دیے کہ اس میں کچھ چھوٹے چھوٹے آدمی موجود ہوتے ہیں جن کی آواز ہم تک پہونچتی ہے۔
لیکن یہ نیا دورِ زندگی ہے، یہاں انسان حقیقت کے بجائے مجازی کیفیت میں رہتا ہے، زندگی کے مختلف شعبوں میں جن آلات کا استعمال قریبی زمانے میں ہوتا تھا، اج ان میں سے اکثر بدل چکے ہیں، لہاذا دماغ کی اس حقیقی غذا کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی تبدیل ہو گیا ہے، لوگ کوچوں اور بیٹھکوں میں مجلس نہ لگا کر ڈجیٹل آلہ سے علم کی اس چاشنی کو حاصل کرتے ہیں، ںچے بھی مشینوں کے عمل کو ویڈیو کے ذریعہ سیکھتے ہیں، کتب بینی بھی ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ کتابیں، مضامین، خبریں اور تنقیدیں سب ڈجیٹل ہیں۔
ڈجیٹل دور میں علم کے حصول میں گر چہ تیزی آئی ہے، ںچے جن الفاظ اور طریقوں کو چھ سال کی عمر میں سیکھتے تھے، آج دو سال کی عمر میں ہی سیکھ لیتے ہیں، ماہرین سے کسی مسئلہ کی بابت دریافت کرنے میں طلبہ کو جو جھجک رہتی یا موقع نا مل پاتا، آج اس آلہ کی وجہ سے اس مسئلہ کا حصول آسان ہو گیا ہے،
لیکن کچھ نقصان ایسے ہیں جو فائدوں کے مقابل ہیں اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اول یہ کہ اس دور میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، ہر شخص دو منٹ کی پوسٹ پڑھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، یعنی صبر ختم ہو گیا ہے، کسی ایک طویل تحریر پر رکنا اور اس میں غور کرنا اس آلہ کی وجہ سے مشکل نظر آتا ہے، اس بیچینی کا فائدہ اٹھاکر دشمن طاقتیں قاری کے ذہن میں کچھ اس طرح کا اثر ڈال دیتی ہیں، جس سے قاری اپنے وقت کو کوئی کتاب پڑھنے کے بجائے مختصر تبصروں کے پڑھنے میں صرف کرتا ہے، اور کافی وقت یوں ہی ضائع جاتا ہے، اور ایک عنوان پر سیر حاصل مطالعہ دشوار ترین ہو جاتا ہے، نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ قاری کے ذہن میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہو جاتا ہے، خصوصا سوشل میڈیا' کہ جب ایک مرتبہ اس میں داخل ہوئے تو وقت کی رفتار تیز ہوئی، صرف اس تلاش میں کہ کوئی اچھی بات ہاتھ لگے آگے بڑھتے جاتے ہیں لیکن نتیجہ صفر رہتا ہے، سوشل میڈیا پر علم کا حصول اگر چہ خلوص کے ساتھ ہو لیکن اس کے مقابلے اگر کوئی کتاب پڑھی جائے تو وقت ضائع کیے بغیر انسان صرف علم حاصل کرتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اسکرین کے ذریعہ مسلسل مطالعہ انکھوں کو اثر انداز کرتا ہے، اس سے نکلنے والی شعاعیں بلاواسطہ ریٹینہ سے ٹکراتی ہیں، جس سے کچھ دیر مطالعہ کرنے پر آنکھیں تھک جاتی ہے، اور مزید مطالعہ دشوار ہو جاتا ہے، جبکہ مجلد کتاب طویل وقت تک پڑھتے رہنے سے، کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
بہر کیف اگر ان دو بڑے نقصان کو ختم کر دیا جائے، قاری اپنے اوقات کی مکمل حفاظت کرے اور اسکرین سے ہونے والے نقصان پر عبور پا لیا جائے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ڈجیٹل مطالعہ کسی بھی قاری کے لیے ایک بڑی جائداد سے کم نہ ہوگا جس میں ہر دن ایک نئی فصل اگتی ہو اور ہر روز ایک نئی غذا حاصل کی جاتی ہو۔
ہزاروں کتابیں دنیا کے مختلف گوشوں سے ہر مہینے شائع ہوتی ہے، نئی دنیا میں جدید تحقیقات کا مطالعہ انتہائی نا گزیر ہے، اور کسی بھی گاؤں یا شہر میں رہنے والے ڈجیٹل قاری کے لیے یہ سنہرہ موقع ہے، کہ دکانوں پر کتاب تلاش کرنے کے بجائے، قاری کے پاس ایک کلک پر کتابوں کا مجموعہ موجود ہوتا ہے، اور جس عنوان پر چاہے جس زبان میں چاہے جس وقت چاہے، تمام مواد ڈجیٹل میں موجود ہے، اور اس کا مطالعہ سفر و حضر میں آسان ہے، ہوائی سفر ہو، بری ہو یا بحری اپنا مکمل مکتبہ اپنے ساتھ ہوتا ہے، کتابوں کا وزن کھینچا آسان ہو چکا ہے، نیز ڈجیٹل دور میں کتابوں کا لکھنا یا تحقیق کرنا بھی آسان ہے، اب قلم کاغذ کی ضرورت کے بغیر، ڈجیٹل آلہ ہی پر مکمل کتاب لکھ سکتے ہیں خصوصاً کم وقت میں اگر کوئی تحقیقی کام کرنا ہو تو ڈجیٹل آلہ ہی کے ذریعہ ممکن ہے، چنانچہ کئی ماہر علماء نے اپنی عمدہ کاوشون کی مکمل تخلیق سفر کے دوران اسی آلہ ہی کے ذریعہ کی ہے۔
اور دنیا ڈجیٹل کی طرف جس رفتار سے گامزن ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند سالوں بعد مجلد کتابیں ملنا ہی بند ہو جائیں، کیونکہ ڈجیٹل لائبریری پر کام بڑی تیزی سے چل رہا ہے، تمام کتابوں کو ڈجیٹل میں لایا جا رہا ہے، اور دنیا کے مختلف خطوں میں الگ الگ زبان میں بے شمار مکتبہ آنلائن ہو چکے ہیں، عرب کے کئی مکتبوں نے اپنی تمام کتابوں کو یونیکوڈ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوے ہیں، عربی ڈجیٹل مکتبوں میں سر فہرست مکتبہ شاملہ ہے جس کا فائدہ علماء طبقے میں بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے، احادیث کی تلاش، قدیم تفاسیر، چاروں مکتبہ فکر کی کتابیں، اصول، فتاویٰ اور تاریخ وغیرہ کی طرف ایک کلک میں پہونچنا آسان ہے، جبکہ انگریزی زبان میں امازون اور گوگل بوک جیسی ویب سائیٹ نے اپنی سرگرمیوں سے دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے، اور مختف زبانوں میں کم قیمت پر آسانی سے کتاب فراہم کرتی ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سی ویب سائٹ ہیں جو مقابلہ میں اپنا نام رکھتی ہیں۔
مستقبل میں امید ہے کہ کوئی ایسا آلہ بازار میں دستیاب ہو جائے، جس کی شکل کتاب جیسی ہو، اسکرین کاغذ جیسی ہو، یعنی اس سے شعاع کی عکاسی نہ ہوتی ہو، اور مکتبہ کی تمام کتابیں اس میں موجود ہوں، اور سوفٹ ویئر اس میں ایسا ہو کہ مطالعہ یا تحریر کے علاوہ کچھ اور نا ہو سکے، تو جو لوگ آج بھی مجلد کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے پاس بھی مجلد کتاب کی شکل میں ایک ڈجیٹل آلہ موجود ہوگا، اور وہ اسی کو ترجیح دینگے، مدارس کی بڑی جماعتوں میں نصابی کتب اور انکی شروحات جو جلدوں کا امبار ہوتی ہیں اس ڈجیٹل کتاب کے ذریعہ بدل چکی ہوں گی، اور اسکولوں میں بچوں کے لیے وزن دار بستوں کا مسئلہ بھی ختم ہوگا، غرض ڈجیٹل مطالعہ اگرچہ آج کچھ نقصان کا باعث ہے لیکن اس ڈجیٹل کتاب کے ذریعہ انتہاہی فائدہ مند ثابت ہوگا اور تعلیم کے شعبے میں مکمل تبدیلی آ جائے گی ۔
یوشع شاد قاسمی
No comments:
Post a Comment