خوبصورت اور دلکش الفاظ کے ذریعے دنیا کو مسحور کرنے کا ایک کھیل جاری ہے، اور یہ فریب اتنا عام ہے کہ کوئی کمپنی چھوٹی ہو یا بڑی، الفاظ اور اشتہارات پر ایک معتد بہ رقم خرچ کرتی ہے، آئے دن نت نئے آفرز ترتیب بدل بدل کر لائے جاتے ہیں، اور لوگوں کو لالچ دے کر جیب سے پیسے نکلوانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، اور انسان کی یہ کمزوری ہے، کہ جس چیز کی اس کو ضرورت بھی نہیں، اس کو آفر دے کر خرید لیتا ہے،
ایک کی خرید پر ایک فری، اتنے فیصد کی چھوٹ، سامان پہلے رقم بعد میں، وغیرہ الفاظ، لالچ دینے کا ایک پرفریب جال ہے، جس میں عوام الناس کو مکمل طور پر جکڑ لیا گیا ہے، بازار میں وہی کمپنی ٹرینڈ پر ہوتی ہیں جو ان جملوں کو جتنی عمدگی سے عام کرتی ہیں ، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ سامان عمدہ ہے یا خسیس، بس آفر کے ذریعہ خرید لیا جاتا ہے، اور یہ جال اتنا مضبوط ہے، کہ آزاد رپورٹ میں شامل ہونے والے بڑے یوٹیوبر بھی کمپنی کے جھانسے میں آکر وہی رپورٹنگ کرتے ہیں، جس کے لیے کمپنی ان کو بھاڑا دیتی ہے۔
گھروں میں کام کرنے والے مکینک بھی مالک مکان سے وہی سامان خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کے اندر کمپنی کی طرف سے پوائنٹ رکھے ہوتے ہیں، جنہیں جمع کرنے پر کمپنی انعام دیتی ہے، یہاں بھی سامان کی عمدگی اور غیر عمدگی سے کوئی بحث نہیں ہوتی۔
ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہے جن ادویات میں بھی ان کو جیب پر درآمد ہو وہی دوائی مریض کے لیے لکھی جاتی ہے، جبکہ اس کے برابر کی دوائی کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہے، ڈاکٹر کو یقین ہوتا ہے کہ دس روپیے کی دوائی مریض کے لیے کافی ہے، ہھر بھی ٹیسٹ لکھے جاتے ہیں، اور حتی الامکان لوٹا جاتا ہے۔
کمپنی کی جانب سے رقم متعین کرنے میں بھی لبھانے والے الفاظ کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے، کسی سامان کی ایک ہزار رقم متعین کرنے کے بجائے ٹرپل نائن، یا دس ہزار سے دو روپے کم کرکے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خریدنے والے کا ذہن دس ہزار کے بجائے نو ہزار کی طرف سبقت کرے، اور دس ہزار کی رقم بھاری معلوم نہ ہو،
دوسری طرف کیش بیک کا مسئلہ بھی زور پر ہے، آدمی اس کے لالچ میں وہ چیز خرید لیتا ہے جس کی اسے ضرورت تک نہیں ہوتی یا اس کمپنی کا پروڈکٹ خرید لیتا ہے جس کے گھٹیا ہونے کا خود اس کو بھی علم ہوتا ہے۔
غرض دنیا کے جس میدان کی طرف اشارہ ہو، انسانیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
اس وقت بحث اس بات سے نہیں ہے کہ کس حد تک ایڈورٹائزمنٹ جائز ہے اور کس حد تک جائز نہیں بلکہ خریدار کی حیثیت سے کہ کمپنی کے پھیلائے گئے جالوں سے اپنے کو بچاتے ہوئے خریداری کرنی چاہیے، مثلاً موبائل خریدنے کا اگر ارادہ ہو تو پہلے اس کا تعین ضروری ہے کہ کس درجے کا موبائل خریدنا ہے، مثال کے طور پر موبائل کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا جائے، دس ہزار تک رقم کا، گیارہ سے 22 ہزار تک کی رقم کا، تیسرا اس سے آگے، پھر ان تینوں درجوں میں اپنی ضرورت متعین کرکے اسی زمرے کے چند موبائل کی چھان بین کر کے انہیں میں سے ایک خرید لیا جائے تاکہ بعد میں مہنگا یا گھٹیا ہونے کے سبب افسوس نہ ہو۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا
(مفہوم)"کاروباربالکل حلال ہے لیکن اکثر تاجر جھوٹی قسمیں کھا تے ہیں اور اپنی چیز کے بارے میں جھوٹی جھوٹی باتیں بیان کر تے ہیں،اس طرح اکثر گناہ گار ہو جاتے ہیں۔معاذاللہ ثم معاذ اللہ۔" (التر غیب والتر ہیب راواہ احمد)۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز خریدنے سے منع فرمایا ہے جس میں دھوکا ہو (نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الحصاۃ و عن بیع الغرر)
اس لیے خریداری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہم جو چیز خرید رہے ہیں، اس میں دھوکا تو نہیں ہے، یا بلا وجہ کوئی چیز تو نہیں خرید دہے ہیں جس کی ہمیں ضرور تک نہیں،
غرض خریداری صحیح ہوگی تو زیادہ کمانے کا بار بھی نہیں ہوگا، جمع پونجی بھی بچی رہے گی اور سامان کے خسیس ہونے پر افسوس بھی نہیں ہوگا۔
یوشع شاد قاسمی