Monday 19 September 2022

New post Yusha Shad Khan Facebook

میرا معمول ہے کہ مجھے جب کوئی اس قسم کا مشورہ دیتا ہے کہ یہ کرنا چاہئے اور یہ ہونا چاہیے مین جواب مین ایسا طریقہ بتلا دیتا ہوں کہ اس میں ان حضرات کو بھی کچھ کرنا پڑے اور خود بھی شرکت کا وعدہ کر لیتا ہوں با وجود میرے وعدہ شرکت کے کسی کو بھی آمادہ نئیں دیکھتا دوسروں ہی کو چاہتے ہیں کہ سب یہی کریں ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔ حضرت تھانوی
by Yusha Shad Khan near https://ift.tt/W9CJ3Ou


2022-09-20T05:39:29.000Z
via Facebook

Tuesday 12 April 2022

آفر اور کیش بیک کا لالچ

خوبصورت اور دلکش الفاظ کے ذریعے دنیا کو مسحور کرنے کا ایک کھیل جاری ہے، اور یہ فریب اتنا عام ہے کہ کوئی کمپنی چھوٹی ہو یا بڑی، الفاظ اور اشتہارات پر ایک معتد بہ رقم خرچ کرتی ہے، آئے دن نت نئے آفرز ترتیب بدل بدل کر لائے جاتے ہیں، اور لوگوں کو لالچ دے کر جیب سے پیسے نکلوانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، اور انسان کی یہ کمزوری ہے، کہ جس چیز کی اس کو ضرورت بھی نہیں، اس کو آفر دے کر خرید لیتا ہے،
 ایک کی خرید پر ایک فری، اتنے فیصد کی چھوٹ، سامان پہلے رقم بعد میں، وغیرہ الفاظ، لالچ دینے کا ایک پرفریب جال ہے، جس میں عوام الناس کو مکمل طور پر جکڑ لیا گیا ہے، بازار میں وہی کمپنی ٹرینڈ پر ہوتی ہیں جو ان جملوں کو جتنی عمدگی سے عام کرتی ہیں ، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ سامان عمدہ ہے یا خسیس، بس آفر کے ذریعہ خرید لیا جاتا ہے، اور یہ جال اتنا مضبوط ہے، کہ آزاد رپورٹ میں شامل ہونے والے بڑے یوٹیوبر بھی کمپنی کے جھانسے میں آکر وہی رپورٹنگ کرتے ہیں، جس کے لیے کمپنی ان کو بھاڑا دیتی ہے۔
  گھروں میں کام کرنے والے مکینک بھی مالک مکان سے وہی سامان خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کے اندر کمپنی کی طرف سے پوائنٹ رکھے ہوتے ہیں، جنہیں جمع کرنے پر کمپنی انعام دیتی ہے، یہاں بھی سامان کی عمدگی اور غیر عمدگی سے کوئی بحث نہیں ہوتی۔ 
   ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہے جن ادویات میں بھی ان کو جیب پر درآمد ہو وہی دوائی مریض کے لیے لکھی جاتی ہے، جبکہ اس کے برابر کی دوائی کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہے، ڈاکٹر کو یقین ہوتا ہے کہ دس روپیے کی دوائی مریض کے لیے کافی ہے، ہھر بھی ٹیسٹ لکھے جاتے ہیں، اور حتی الامکان لوٹا جاتا ہے۔
     کمپنی کی جانب سے رقم متعین کرنے میں بھی لبھانے والے الفاظ کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے، کسی سامان کی ایک ہزار رقم متعین کرنے کے بجائے ٹرپل نائن، یا دس ہزار سے دو روپے کم کرکے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خریدنے والے کا ذہن دس ہزار کے بجائے نو ہزار کی طرف سبقت کرے، اور دس ہزار کی رقم بھاری معلوم نہ ہو،
        دوسری طرف کیش بیک کا مسئلہ بھی زور پر ہے، آدمی اس کے لالچ میں وہ چیز خرید لیتا ہے جس کی اسے ضرورت تک نہیں ہوتی یا اس کمپنی کا پروڈکٹ خرید لیتا ہے جس کے گھٹیا ہونے کا خود اس کو بھی علم ہوتا ہے۔
        غرض دنیا کے جس میدان کی طرف اشارہ ہو، انسانیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
            اس وقت بحث اس بات سے نہیں ہے کہ کس حد تک ایڈورٹائزمنٹ جائز ہے اور کس حد تک جائز نہیں بلکہ خریدار کی حیثیت سے کہ کمپنی کے پھیلائے گئے جالوں سے اپنے کو بچاتے ہوئے خریداری کرنی چاہیے، مثلاً موبائل خریدنے کا اگر ارادہ ہو تو پہلے اس کا تعین ضروری ہے کہ کس درجے کا موبائل خریدنا ہے، مثال کے طور پر موبائل کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا جائے، دس ہزار تک رقم کا، گیارہ سے 22 ہزار تک کی رقم کا، تیسرا اس سے آگے، پھر ان تینوں درجوں میں اپنی ضرورت متعین کرکے اسی زمرے کے چند موبائل کی چھان بین کر کے انہیں میں سے ایک خرید لیا جائے تاکہ بعد میں مہنگا یا گھٹیا ہونے کے سبب افسوس نہ ہو۔
         
  نبی علیہ السلام نے فرمایا
 (مفہوم)"کاروباربالکل حلال ہے لیکن اکثر تاجر جھوٹی قسمیں کھا تے ہیں اور اپنی چیز کے بارے میں جھوٹی جھوٹی باتیں بیان کر تے ہیں،اس طرح اکثر گناہ گار ہو جاتے ہیں۔معاذاللہ ثم معاذ اللہ۔" (التر غیب والتر ہیب راواہ احمد)۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز خریدنے سے منع فرمایا ہے جس میں دھوکا ہو (نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الحصاۃ و عن بیع الغرر) 
 اس لیے خریداری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہم جو چیز خرید رہے ہیں، اس میں دھوکا تو نہیں ہے، یا بلا وجہ کوئی چیز تو نہیں خرید دہے ہیں جس کی ہمیں ضرور تک نہیں،    
    غرض خریداری صحیح ہوگی تو زیادہ کمانے کا بار بھی نہیں ہوگا، جمع پونجی بھی بچی رہے گی اور سامان کے خسیس ہونے پر افسوس بھی نہیں ہوگا۔

یوشع شاد قاسمی 

اویسی vs اکھکیش


یوپی انتخاب کے چلتے مسلمانوں کے دو طبقہ الگ نظریات کے ساتھ اپنی اپنی پارٹی کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
ان میں کا ایک بڑا حصہ اویسی کے ساتھ ہے،
ان کے پاس اویسی کو سپورٹ کرنے کی بنیادی تین دلیلیں ہیں،
 
1- ہم ان لیڈروں کو ووٹ کیوں کر دے سکتے ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے خلاف بی جے پی میں شامل تھے اور تین طلاق وغیرہ مسئلہ پر کھل کر بی جے پی کا ساتھ دے رہے تھے، یا مسلمانوں کو گالیاں دے رہے تھے!

2- سیکیولر پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا، سوائے اس کے کہ مسلمانوں رکشہ چلانے ہر مجبور ہوے، اب تک کانگریس کی سرکار تھی لیکن کانگریس بھی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں پائی، 2014 کے بعد ہونے والے حوادث کے مقابلے پہلے کے حوادث کچھ کم نہ تھے، یعنی تمام پارٹی ایک سکہ کے دو پہلو ہیں ایک بدنام ہوتا ہے تو دوسرا سامنے آجاتاہے۔ نیز مسلمان صرف ووٹ بنک بک کر رہ گیا ہے، سیکیولر پرٹیاں بی جے پی کا خوف دکھا کر چاہتی ہیں کہ مسلمان صرف اسی کو ہرانے میں لگا رہے،

3- جتنے حوادث مسلمانوں پر ہیں وہ سیاسی لیڈر شپ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں، اویسی کے علاوہ کون ہے جس نے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی ہو؟ جس نے تین طلاق، موبلینچگ، مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اور ہر اس مسئلہ میں جو صرف مسلمان کا مسئلہ ہے میں سبقت کی ہو اور پارلیمان یا میڈیا میں مضبوط آواز بن کر کھڑا ہوا ہو، یعنی یہ سب لیڈر شپ نہ ہونے کا نتیجہ ہے اسی لیے ہم کو اپنا سیاسی لیڈر اور سیاسی حصہ داری درکار ہے۔

جبکہ اوپر کی تینوں دلائل کو تسلیم کرتے ہوے اکھکیش کے سپوٹرز کی دلیل ماحول کا کارساز نہ ہونا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ انڈیا میں اگرچہ مسلمانوں کی تعداد دوسری ذاتوں سے ذات کے اعتبار سے کہیں زیادہ ہے، مگر ان ذاتوں کو ایک سازش کے ذریعے ایک نام (ہندو) پر متحد کر دیا گیا ہے، جہاں یہ بات آتی ہے کہ مسلمانوں کی حصہ داری اس ملک میں درکار ہے، وہیں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، وغیرہ، ہندؤ بنام مسلمان پر جمع ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک زمانے سے ان کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے، اکثر آبادی کو جبراً مسلمانوں کا خوف دکھا کر لفظِ ہندو میں شامل کر لیا گیا ہے،
اس ملک کی اصل سیاست ذات پات کے نظام پر مبنی ہے، براہمن، شیتریے اور ویشیے کا مقابلہ او بی سی، ایسی، ایس ٹی آدیواسیوں سے ہے، اوپر کی تینوں ذاتیں مسلمان کا خوف دکھا کر، اپنے سے نیچے کی ذات پر حکومت کرنا چاہتی ہے اور کر رہی ہے۔ 
بی جے پی کا ہندو مسلم کرنا اسی غرض سے ہے کہ کہیں پچھڑا طبقہ خواب سے بیدار نہ ہو جائے اور آرکشن کی مانگ پھر سے نا ہونے لگے جس کے نتیجہ میں وہ حکومت کرنے کے اہل ہو جائیں گے، 1980 منڈل کمیشن کی تاریخ اس کی شاہد ہے کہ ںابری مسجد کا سانحہ، رتھ یاترا سب اسی منڈل کو روکنے کے لیے ہوا تھا جس کا اظہار اس وقت کے وزیراعظم نے بھی 'منڈل نہیں تو کمنڈل نہیں' کے الفاظ سے کیا تھا. اب یوپی میں بھی منڈل کے جھنڈے تلے تمام پسماندہ طبقہ اور سیکولر ہندو جمع ہو رہا ہے، ادھر کمنڈل میں بھی ںغاوت کے آثار نظر آرہے ہیں

لہذا ہماری سیاست تب تک ناکام رہے گی جب تک ہم ان مظلوم طبقات کو ساتھ نہ لیں، اویسی کی چند سیٹ لانے پر سوائے بیان جاری کرنے کے کوئی فائدہ نہیں جبکہ ووٹوں کی تقسیم کے سبب مرکز میں بی جے پی ہو۔
لیڈرشپ کی واقعی ضرورت ہے، اتحاد بھی لازمی ہے، مسلمانوں کے اپسی انتشار کا ہی نتیجہ ہے کہ امت بربادی کے دہانے پر ہے، کیا خوب ہوتا کہ ایک ایسی لیڈرشپ ہوتی کہ جس کی آواز انڈیا کے ہر مسلمان کی آواز ہوتی، لیکن کیا ان سیاسی پارٹیوں میں اتحاد ہے جن کے سربراہ مسلمان ہیں، اور جو صرف مسلمان لیڈرشپ کے نام پر بنائی گئی تھیں، 
خلاصۃ یہ کہ فی الوقت حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ اتحاد کے ساتھ ووٹ دی جائیں، دوسری پارٹی کو ووٹ دینا یا ظالم وجابر کا سپورٹ کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ آئندہ پیش آنے والے تباہ کن نقصان سے بچنے کے لیے اس چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جاتا ہے۔

یوشع شاد قاسمی 

ڈیجیٹل دور اور مطالعہ


کسی بھی قلم کار یا خطیب کے لیے مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جاندار کے لیے غذا کی ضرورت ہے، قلم یا خطابت کے میدان میں بغیر مطالعہ کے جانا تلوار کے بغیر میدانِ جہاد میں جانے کے مرادف ہے، جس کا رنِ اول میں ہی شکست کھانا یقیقنی ہے، مطالعہ ہی علم کا قوی تر ذریعہ ہے، اور علم دماغ کی غذا ہے، علم کے بغیر انسان کا دماغ بے چین اور اضطراری کیفیت کا شکار ہوتا ہے، اگلے قریب زمانے میں ہر نکڑ اور بیٹھکوں میں لوگوں کا جمع ہونا اور گاؤں، بستی اور ملک کے متعلق تبادلہ خیال کرنا اسی کیفیت کی عکاسی تھی۔
 جو دماغ جس کیفیت کی زیادتی کا شکار ہوتا وہ علم حاصل کرنے کے لئے اسی درجے کے ذریعہ کا انتخاب کرتا، کچھ لوگ علماء کی صحبت سے علمی سیرابی حاصل کرتے اور کچھ براہ راست کتب بینی سے علم کی پیاس بجھاتے اور ظاہر ہے کہ جو شخص حصولِ علم کے جس درجہ کا انتخاب کرتا ، اسی قدر علم اسکو حاصل ہوتا۔
 
 بچوں کا والدین سے نئی نئی کہانیاں سننے کا اصرار کرنا، اور اشیاء کے متعلق بار بار سوال کرنا، اس بات کی طرف بدیہی اشارہ ہے کہ علم کا حصول ایک فطری عمل ہے، اور علم کی پیاس پانی کی پیاس کے مشابہ ہے،
   مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میرے لئے جو کھلونا خریدا جاتا اس کی خیر صرف ایک دن کہ رہتی اگلے دن اس کو توڑنا اور اس کے پرزوں کی تحقیق کرنا ناگزیر ہوتا اور تب تک ذہن کو سکون نہ ہوتا جب تک اس کے پرزوں کو بغور نہ دیکھ لیا جائے، ایک مرتبہ دادا کی ریڈیوں کے ٹکڑے صرف اس خیال سے کر دیے کہ اس میں کچھ چھوٹے چھوٹے آدمی موجود ہوتے ہیں جن کی آواز ہم تک پہونچتی ہے۔
  
 لیکن یہ نیا دورِ زندگی ہے، یہاں انسان حقیقت کے بجائے مجازی کیفیت میں رہتا ہے، زندگی کے مختلف شعبوں میں جن آلات کا استعمال قریبی زمانے میں  ہوتا تھا، اج ان میں سے اکثر بدل چکے ہیں، لہاذا دماغ کی اس حقیقی غذا کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی تبدیل ہو گیا ہے، لوگ کوچوں اور بیٹھکوں میں مجلس نہ لگا کر ڈجیٹل آلہ سے علم کی اس چاشنی کو حاصل کرتے ہیں،  ںچے بھی مشینوں کے عمل کو ویڈیو کے ذریعہ سیکھتے ہیں، کتب بینی بھی ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ کتابیں، مضامین، خبریں اور تنقیدیں سب ڈجیٹل ہیں۔
 ڈجیٹل دور میں علم کے حصول میں گر چہ تیزی آئی ہے، ںچے جن الفاظ اور طریقوں کو چھ سال کی عمر میں سیکھتے تھے، آج دو سال کی عمر میں ہی سیکھ لیتے ہیں، ماہرین سے کسی مسئلہ کی بابت دریافت کرنے میں طلبہ کو جو جھجک رہتی یا موقع نا مل پاتا، آج اس آلہ کی وجہ سے اس مسئلہ کا حصول آسان ہو گیا ہے، 
  لیکن کچھ نقصان ایسے ہیں جو فائدوں کے مقابل ہیں اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اول یہ کہ اس دور میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے،  ہر شخص دو منٹ کی پوسٹ پڑھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، یعنی صبر ختم ہو گیا ہے، کسی ایک طویل تحریر پر رکنا اور اس میں غور کرنا اس آلہ کی وجہ سے مشکل نظر آتا ہے، اس بیچینی کا فائدہ اٹھاکر دشمن طاقتیں قاری کے ذہن میں کچھ اس طرح کا اثر ڈال دیتی ہیں، جس سے قاری اپنے وقت کو کوئی کتاب پڑھنے کے بجائے مختصر تبصروں کے پڑھنے میں صرف کرتا ہے، اور کافی وقت یوں ہی ضائع جاتا ہے، اور ایک عنوان پر سیر حاصل مطالعہ دشوار ترین ہو جاتا ہے، نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ قاری کے ذہن میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہو جاتا ہے، خصوصا سوشل میڈیا' کہ جب ایک مرتبہ اس میں داخل ہوئے تو وقت کی رفتار تیز ہوئی، صرف اس تلاش میں کہ کوئی اچھی بات ہاتھ لگے آگے بڑھتے جاتے ہیں لیکن نتیجہ صفر رہتا ہے، سوشل میڈیا پر علم کا حصول اگر چہ خلوص کے ساتھ ہو لیکن اس کے مقابلے اگر کوئی کتاب پڑھی جائے تو وقت ضائع کیے بغیر انسان صرف علم حاصل کرتا ہے۔
  دوسرے یہ کہ اسکرین کے ذریعہ مسلسل مطالعہ انکھوں کو اثر انداز کرتا ہے، اس سے نکلنے والی شعاعیں بلاواسطہ ریٹینہ سے ٹکراتی ہیں، جس سے کچھ دیر مطالعہ کرنے پر آنکھیں تھک جاتی ہے، اور مزید مطالعہ دشوار ہو جاتا ہے، جبکہ مجلد کتاب طویل وقت تک پڑھتے رہنے سے، کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
  بہر کیف اگر ان دو بڑے نقصان کو ختم کر دیا جائے، قاری اپنے اوقات کی مکمل حفاظت کرے اور اسکرین سے ہونے والے نقصان پر عبور پا لیا جائے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ڈجیٹل مطالعہ کسی بھی قاری کے لیے ایک بڑی جائداد سے کم نہ ہوگا جس میں ہر دن ایک نئی فصل اگتی ہو اور ہر روز ایک نئی غذا حاصل کی جاتی ہو۔

 ہزاروں کتابیں دنیا کے مختلف گوشوں سے ہر مہینے شائع ہوتی ہے، نئی دنیا میں جدید تحقیقات کا مطالعہ انتہائی نا گزیر ہے، اور کسی بھی گاؤں یا شہر میں رہنے والے ڈجیٹل قاری کے لیے یہ سنہرہ موقع ہے، کہ دکانوں پر کتاب تلاش کرنے کے بجائے،  قاری کے پاس ایک کلک پر کتابوں کا مجموعہ موجود ہوتا ہے، اور جس عنوان پر چاہے جس زبان میں چاہے جس وقت چاہے، تمام مواد ڈجیٹل میں موجود ہے، اور اس کا مطالعہ سفر و حضر میں آسان ہے، ہوائی سفر ہو، بری ہو یا بحری اپنا مکمل مکتبہ اپنے ساتھ ہوتا ہے، کتابوں کا وزن کھینچا آسان ہو چکا ہے، نیز ڈجیٹل دور میں کتابوں کا لکھنا یا تحقیق کرنا بھی آسان ہے، اب قلم کاغذ کی ضرورت کے بغیر، ڈجیٹل آلہ ہی پر مکمل کتاب لکھ سکتے ہیں خصوصاً کم وقت میں اگر کوئی تحقیقی کام کرنا ہو تو ڈجیٹل آلہ ہی کے ذریعہ ممکن ہے، چنانچہ کئی ماہر علماء نے اپنی عمدہ کاوشون کی مکمل تخلیق سفر کے دوران اسی آلہ ہی کے ذریعہ کی ہے۔
اور دنیا ڈجیٹل کی طرف جس رفتار سے گامزن ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند سالوں بعد مجلد کتابیں ملنا ہی بند ہو جائیں، کیونکہ ڈجیٹل لائبریری پر کام بڑی تیزی سے چل رہا ہے، تمام کتابوں کو ڈجیٹل میں لایا جا رہا ہے، اور دنیا کے مختلف خطوں میں الگ الگ زبان میں بے شمار مکتبہ آنلائن ہو چکے ہیں، عرب کے کئی مکتبوں نے اپنی تمام کتابوں کو یونیکوڈ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوے ہیں، عربی ڈجیٹل مکتبوں میں سر فہرست مکتبہ شاملہ ہے جس کا فائدہ علماء طبقے میں بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے، احادیث کی تلاش، قدیم تفاسیر، چاروں مکتبہ فکر کی کتابیں، اصول، فتاویٰ اور تاریخ وغیرہ کی طرف ایک کلک میں پہونچنا آسان ہے، جبکہ انگریزی زبان میں امازون اور گوگل بوک جیسی ویب سائیٹ نے اپنی سرگرمیوں سے دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے، اور مختف زبانوں میں کم قیمت پر آسانی سے کتاب فراہم کرتی ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سی ویب سائٹ ہیں جو مقابلہ میں اپنا نام رکھتی ہیں۔
  مستقبل میں امید ہے کہ کوئی ایسا آلہ بازار میں دستیاب ہو جائے، جس کی شکل کتاب جیسی ہو، اسکرین کاغذ جیسی ہو، یعنی اس سے شعاع کی عکاسی نہ ہوتی ہو، اور مکتبہ کی تمام کتابیں اس میں موجود ہوں، اور سوفٹ ویئر اس میں ایسا ہو کہ مطالعہ یا تحریر کے علاوہ کچھ اور نا ہو سکے، تو جو لوگ آج بھی مجلد کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے پاس بھی مجلد کتاب کی شکل میں ایک ڈجیٹل آلہ موجود ہوگا، اور وہ اسی کو ترجیح دینگے،  مدارس کی بڑی جماعتوں میں نصابی کتب اور انکی شروحات جو جلدوں کا امبار ہوتی ہیں اس ڈجیٹل کتاب کے ذریعہ بدل چکی ہوں گی، اور اسکولوں میں بچوں کے لیے وزن دار بستوں کا مسئلہ بھی ختم ہوگا، غرض ڈجیٹل مطالعہ اگرچہ آج کچھ نقصان کا باعث ہے لیکن اس ڈجیٹل کتاب کے ذریعہ انتہاہی فائدہ مند ثابت ہوگا اور تعلیم کے شعبے میں مکمل تبدیلی آ جائے گی ۔

یوشع شاد قاسمی